کشمیر کا نعرہ لگاتے جا¶ آدھی باقر خانی کھاتے جا¶۔
سیف وسبو:شفقت نزیر- میں جب نیانیا باقائدہ اخبار نویس بنا تو اسلام آباد سے شائع ہونے والے ایک اخبار میں پارلیمانی رپورٹنگ کے ساتھ ساتھ آزاد کشمیر کی بیٹ بھی میرے سپرد کی گئی اور یقین کریں اس دور میں ، میں دیگر رپورٹروں کے مقابلے میں زیادہ معروف تھا اسکی وجہ پارلیمانی رپورٹنگ نہیں بلکہ آزاد کشمیر کی سیاست سے متعلق سرگرمیوں کی کوریج تھی جو روزانہ کی بنیادوں پر دارلحکومت کے جڑواں شہروں میں جاری تھیں۔ گذشتہ روز سید خالد گردیزی نے “سیاسی قلابازیاں” کے عنوان سے جو کچھ لکھا اسے پڑھ کر میں ” یادِ رفتگاں” میں غوطہ زن ہوگیا ۔ وہی خبریں،پریس ریلزیں، فوٹو سیشن اور وہی قضیہِ کشمیر اور وہی نازک دور میں حیران ہوں کہ کچھ بھی نہیں بدلا اور تو اور برطانیہ میں بھی وہی حالات وہی جعلی فنگشن اور وہی مصلحت کوشی۔وہی بے ڈھنگی چال جو پہلے تھی سو اب بھی ہے گزشتہ 70 سالوں سے یہی کچھ ہوتا آرہا ہے صرف پریس ریلیزوں اور فوٹو سیشن کی بنیاد پر کشمیر کی آزادی کے خواب دیکھے جاتے ہیں ایک بار مرحوم کے ایچ خورشید نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا تھا کہ آزاد کشمیر میں ہر کوئی اپنے آپ کو کشمیریوں کا مسلمہ لیڈر سمجھتا ہے اور محض باتوں سے کشمیر کو آزاد کروانا چاہتا ہے عملی طور پر کوئی کچھ نہیں کرناچاہتا اور اگر واقعی کوئی کچھ کرنا چاہتا ہے تواس کی ٹانگیں کھینچی جاتی ہیں اور پھر اسے برادری ازم کی مار ماری جاتی ہے۔
یہی کچھ تو ہورہا ہے بات تو ہم کشمیر کی آزادی کی کرتے ہیں مگر اقتدار صرف آزادکشمیر کا لینا چاہتے ہیں اور پھر ہم نے پاکستان کی سیاسی جماعتوں کا میلہ آزاد کشمیر میں لگا کر اپنے ہاتھ خود ہی کاٹ دیے ہیں میں یہاں خالد گردیزی کی اس بات پر معترض ہوں کہ وزیراعظم آزاد کشمیر کے اختیارات ایک چئیرمین کے برابر ہیں جب پیپلز پارٹی لندن کے ایک عام عہدیدار چوہدری ریاض کے اختیار میں آزاد کشمیر کے تمامِ اقتدار کی کُنجیاں تھما دی جائیں تو ہمارے وزیراعظم کا اختیار ایک چئیرمین سے بھی بہت کم ہوجاتا ہے۔واقعی اس کے نصیب میں تو اب جھنڈی کی پھڑپھڑاہٹ ہی رہ گئی ہے ۔ اسی لیئے انہوں نے کمائی کا دوسرا راستہ اختیار کیا لا تعداد مشیر اور معاون بنانے شروع کئے اور یہ سب ” پے ایز یو گو“ کے فارمولے تحت ہوتا رہا ہمارے ایک نوجوان راجے کو بھی یہ سیاسی بھوت چمٹ گیا اللہ جانے وہ کون سا عہدا بتاتے تھے کہ حکومت کی طرف سے انہیں ملا ہے کہ کئی سالوں کی دشت کی سیاحی کے باوجود ہ اس قسم کے عہدے کی ہوا تک ہمیں چھو کر نہیں گزری تھی۔ ان کو بھی جھنڈے والی کار اور گھر و دفتر ملا ہوا تھا جبکہ تنخواہ بھی لاکھوں میں بتاتے تھے مگر عقد یہ کھلا کہ سب ” ایزی لوڈ“ اور ”پے ایز یو گو“ کا کمال تھا۔ ہم ہیں تو جعلی عزت وتقریم اور مال ومنال کے بھوکھے لوگ۔۔۔۔۔! آزاد کشمیر کے ایک سیاستدان جب پہلی مرتبہ وزیر بنے تو میں نے ان سے پوچھا اب آپ کیسا محسوس کرتے ہیں تو آگے سے انہیں نے فرمایا کہ شفقت صاحب بس کچھ نہ پوچھیں جب آپ جھنڈی لگی گاڑی میں بیٹھتے ہیں اور ہوا سے جب جھنڈی پھڑپھڑاتی ہے تو آپ سوچ نہیں سکتے اس کا مزا ہی کچھ اور ہے۔ہمارے آزاد کشمیر کے سیاستدانوں نے فقط اس مزے کی خاطر اپنے آپ کو رہن رکھ دیا ہے ۔آزاد کشمیر کی لیڈرشپ برطانیہ آتی ہے جلسے جلوس منعقد کرتی ہے کشمیر کی بات کی جاتی ہے پھر کھانا کھایا جاتا ہے اور باقی “معملات”کے بعدکہانی اگلے دورے تک ختم ہوجاتی ہے۔آزادیِ کشمیر کے نام پر”رج”کر فنڈز بھی استعمال ہوتے ہیں اور اپنی “پروجیکشن”بھی کی جاتی ہے اگرکسی کے بارے میں کچھ نہیں ہوتا تو وہ بے چارہ قضیہِ کشمیر جسے جوں کا توں اگلے دورے کے لیئے محفوظ کرلیا جاتا ہے۔اس کے برعکس برطانیہ میں بھارتی لابی شروع سے ایک منظم طریقے سے کام کر رہی ہے وہ فضول نعرے بازی سے گریز کرتے ہیں اورکبھی انہوں نے کسی لیڈر کے اہتمام میں جلسہ نہیں کیا اور نہ ہی کوئی استقبالیہ دیا لیکن اپنا کام سو فیصدی کرتے ہیں ہر کام کے پیچھے ان کا ہوم ورک ہوتا ہے کوئی کانفرنس کوئی سیمینار نہیں مگر مشترکہ جدوجہد خاموشی کے ساتھ ان کا خاصہ ہے تیر نشانے پر مارنے کا انہیں ہنر آتا ہے ۔ ہماری مثال یہ ہے ہم آدھی باقر خانی پر ہی خوش ہیں ۔میرپور میں ایک شخص کا نام ہی آدھی باقر خانی پڑ گیا جس کی وجہ تسمیہ یہ تھی کی وہ ہمیشہ بیکری میں جاتا تو صرف ایک ہی باقرخانی خریدتا۔ ایک مرتبہ بیکری والے نے اس سے استفسار کیا کہ آپ تو دو لوگ ہو پھر ہر مرتبہ ایک ہی باقر خانی کیوں خریدتے ہو تو اس شخص نے سادگی سے جواب دیا کہ آدھی باقر خانی میں کھاتا ہوں اور آدھی میری بیوی۔۔۔۔!۔کچھ اس سے ملتا جلتا حال ہمارے آزاد کشمیر کے سیاستدانوں کا ہے وہ تو خریدتے ہی آدھی باقر خانی ہیں ۔ پوری کی تمنا ہی انہوں نے کبھی نہیں کی۔کیونکہ پوری باقر خانی وہ ہضم ہی نہیں کرسکتے۔میرے ایک دوست اس سلسلے میں یہ دلیل دیتے ہیں کہ آزاد کشمیر سے تعلق رکھنے والے “سیاسی” لوگ کبھی بھی کشمیر کی آزادی نہیں چاہتے کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ اگر ایسا ہوگیا تو ان کی دوکانداری ختم ہوجائے گی یہ چھنڈی کی پھڑ پھڑاہٹ اور مزے ایک خواب کا روپ دھار لیں گے سرمایہ لگا کر قانون ساز بننے اور پھر دگنا منافع کمانے کے دن لُد جائیں گے اور ان کی حثیت محض ایک علاقائی لیڈر کی رہ جائے گی جو کونسلر تو بن سکتا ہے مگر اس سے آگے کچھ نہیں دوسری جانب کی لیڈر شپ انہیں صفِ اول میں آنے کا موقع نہیں دے گی کیونکہ وہ ان سے کئی درجے زیادہ باصلاحیت ہیں اور پڑھی لکھی قیادت کے حامل ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ آدھی باقر خانی پر ہی اکتفا کرتے ہیں انہیں معلوم ہے کہ اگر کشمیر آزاد ہو گیا تو وہ اس آدھی باقر خانی سے بھی جائیں گے اس لیئے
کشمیر کا نعرہ لگاتے جا¶ آدھی باقر خانی کھاتے جا¶۔
